واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی

رحمتہ اللہ علیہ

 

حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ  قصبہ اوش ترکستان میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اسم گرامی بختیار لقب قطب الدین  عرف کاکی  ہے۔آپ کے والد کا نام خواجہ کمال الدین احمد اوشی ہے جو ماورائ النہر کے قصبے اوش کے رہنے والے تھے جہاں آپ  رحمتہ اللہ علیہ  پیدا ہوئے۔ آپ حسینی سادات میں سے تھے۔ آپ کی عمر صرف ڈیڑھ سال کی ہی تھی کہ آپ کے والد بزرگوار کا انتقال ہو گیا۔ آپ کی والدہ ایک نیک اور با عصمت خاتون تھیں۔ انہوں نے ہی آپ  کی پرورش کی۔ جب آپ کی عمر پانچ برس کی ہوئی تو ۔ آپ کی والدہ ماجدہ نے اپنے پڑوسی بزرگ سے کہا کہ میرے معصوم بچے کو کسی اچھے معلم کے سپرد کر دیں تاکہ یہ کچھ علم دین حاصل کر لے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

وہ بزرگ اس بچے کو لے کر چلے ہی تھے کہ راستے میں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی۔بزرگ نے ان سے  بچےکے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ ایک اچھے خاندان کا بچہ ہے مگر اس کے والد کا انتقال ہو گیا ہے ۔ بیوہ ماں نے مجھے بلا کر کہا کہ اس کو کسی اچھے مکتب میں داخل کر دو۔بزرگ نے یہ سن کر فرمایا کہ تم یہ کام میرے سپرد کر دو۔ میں اس کو ایک ایسے معلم کے حوالے کروں گا جس کے علم کے فیض اور برکت سے یہ بڑا صاحبِ کمال بن جائے گا۔پڑوسی اس بات کو سن کر بہت ہی خوش ہوئے اور بچے کو لے کر ان بزرگ کے ساتھ معلم کے گھر جانے پر راضی ہو گئے۔ یہ دونوں قصبہ اوش کے ایک معلم ابو حفص کے پاس گئے اور خواجہ بختیار کاکی کو ان کے سپرد کر دیا ۔ ساتھ ہی ان بزرگ نے ابو حفص کو ہدایت کی کہ یہ لڑکا اولیائ اللہ میں شمار ہو گا اس لیے اس پر خاص شفقت فرمائیں۔

جب یہ دونوں حضرات خواجہ کو چھوڑ کر چلے گئے تو معلم ابو حفص نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کون تھے جو تم کو اس مدرسہ میں لائے تھے؟ خواجہ بختیارنے کہا کہ میں ان کو بالکل نہیں جانتا میری والدہ نے تو مجھے اپنے پڑوسی کے سپرد کیا تھا۔یہ بزرگ راستے میں مل گئے اور مجھے آپ کی خدمت میں لے آئے۔ معلم ابو حفص نے جب یہ دیکھا کہ بچہ ان بزرگ کو نہیں جانتا تو انہوں نے بتایا کہ یہ بزرگ دراصل حضرت خضر علیہ السلام تھے۔

کچھ عرصے تک دینی علوم کی تحصیل کے بعد آپ بغداد تشریف لے گئے اور امام ابواللیث  سمرقندی کی  مسجد میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی سنجری رحمتہ اللہ علیہ  سے ملاقات کی۔اس وقت آپ کی صحبت میں شیخ شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ  ، شیخ اوحدالدین کرمانی رحمتہ اللہ علیہ  ، شیخ برہان الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ  ، شیخ محمد اصفہانی رحمتہ اللہ علیہ  ، جیسے اولیائے کرام موجود تھے حضرت بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ  نے ان سب بزرگوں سے فیض روحانی حاصل کیا اور جب معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ  نے انہیں ولایت پر فائز کیا اور خرقہ عطا فرمایا تو آپ کی عمر صرف سترہ سال کی تھی۔

حضرت معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ   نے  آپ کو شہر دہلی کی ولایت پر مامور کیا اور اس کے بعد خود بھی دہلی (ہندوستان ) روانہ ہو گئے۔حضرت بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ  اپنے پیرو مرشد کے حکم کے مطابق دہلی روانہ ہوئے تو پہلے ملتان پہنچے ۔ آپ کے ہمراہ شیخ جلال الدین تبریزی بھی تھے جو بعد میں آپ سے علیحدہ ہو کر دوسری جانب چلے گئے تھے۔

ملتان میں شیخ بہاؤ الدین ذکریا کو آپ کی آمد کی خبر ملی تو وہ استقبال کے لیے آئے۔ بڑی تعظیم کے ساتھ اپنے گھر لے گئے اور اپنے پاس ٹھہرایا ایک روز تینوں حضرات بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ ایک سردار قباچہ ایبک نامی حاضر ہوا۔اس نے عرض کیا کہ مغلوں کا لشکر ہمیشہ پریشان کرتا رہتا ہے۔آپ خدا سے دعا فرمائیں کہ وہ بھاگ جائے۔چنانچہ تینوں بزرگوں نے دعا کی۔ اس کے بعد خواجہ بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ  نے اس کو ایک تیر دیا اور فرمایا کہ تم اس تیر کو مغلوں کے لشکر میں پھینک دو اور اطمینان کے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ اس نے ایسا ہی کیا سنا ہے تیر پھینکنے کے بعد مغل لشکر میں خود بخود بھگدڑ پڑ گئی اور ایسا خوف طاری ہوا کہ سب فرار ہو گئے۔

یہ سردار دراصل ملتان کا حاکم سلطان ناصر الدین قباچہ تھا۔ جب حضرت بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ  ملتان سے دہلی کی طرف روانہ ہوئے تو اس نے ملتان میں ہی رکھنے کے لیے ان کی بہت خوشامد اور اصرار کیا مگر آپ نے جواب دیا کہ یہ جگہ شیخ ذکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ  کے لیے مقرر ہوئی ہے اس کے علاوہ میں اپنے شیخ طریقت حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ  کی اجازت کے بغیر کسی جگہ سکونت اختیار نہیں کرسکتا۔

حضرت بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ  کے دہلی پہنچنے سے قبل ایک رو زقاضی حمید الدین ناگوری رحمتہ اللہ علیہ  نے کشف کے عالم میں دیکھا کہ آفتاب کی روشنی دہلی اور اس کے آس پاس پھیلی ہوئی ہے پھر آفتاب آپ کے مکان میں اتر آیا اور کہنے لگا میں تمہارے گھر ہی میں رہوں گا آپ سوچنے لگے اس خواب کا کیا مطلب ہے خیال کیا کہ آفتاب سے مراد شاید کوئی ولی ہے۔

اس خواب کے دو روز بعد حضرت بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ  دہلی تشریف لائے اور ایک نان بائی کے گھر ٹھہرے جو آپ کا بہت معتقد تھا قاضی حمید الدین ناگوری رحمتہ اللہ علیہ  کو روحانی طریقے سے پتا چل گیا تھا کہ ان کے دوست قطب الدین دہلی آئے ہوئے ہیں اور فلاں نان بائی کے گھر ٹھہرے ہوئے ہیں آپ اسی وقت پیدل نان بائی کے گھر گئے اور اپنے دوست کو اپنے گھر لے آئے کہا جاتا ہے کہ اس وقت حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ  کی عمر صرف سترہ سال تھی قاضی حمید الدین ناگوری رحمتہ اللہ علیہ  اگرچہ آپ کے استاد تھے لیکن وہ ان کا بے حد احترام کرتے اور کہتے تھے کہ حضرت بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ  مجھ سے ہزار ہا درجہ بہتر ہیں۔

حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ  رات دن آپ دو سو پچاس رکعت نماز ادا کرتے اور ہر رات  حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح پر دو تین ہزر بار درود بھیجتے اور اس قصبے کے لوگوں کو فیض پہنچاتے۔

حضرت شیخ نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ  سے روایت ہے کہ قصبہ اوش میں آپ کا ایک مرید تھا جس کا نام رئیس احمد تھا۔ وہ بہت پرہیز گار شخص تھا۔اس نے ایک شب خواب دیکھا کہ ایک محل عالی شان ہے۔بہت سے لوگوں کا اس کے پاس ہجوم ہے۔ نورانی شکل اور درمیانہ قدر کے ایک بزرگ محل کے اندر سے آ جا رہے ہیں اور بار بار کھڑے ہو کر لوگوں کا پیغام لے کر جاتے اور اندر سے جواب لے کر آتے ہیں۔ رئیس احمد نے ایک شخص سے دریافت کیا ۔ یہ محل کن صاحب کا ہے اور یہ بزرگ کون ہیں؟ اس نے بتایا کہ محل میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف رکھتے ہیں اور یہ بزرگ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں کہ لوگوں کو پیغام لے کر جاتے ہیں اور جواب لاتے ہیں۔

یہ سنتے ہی رئیس احمد نے ان بزرگ سے عرض کیا کہ میری طرف سے حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیجیے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کا مشتاق ہوں۔میرے لیے کیا حکم ہےَ؟ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اندر جا کر جواب لائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ابھی تجھ میں ہمارے دیکھنے کی قابلیت نہیں ہے تو جا کر ہمارا سلام قطب الدینکو پہنچا اور یہ کہہ کہ وہ ہر شب ہمیں ایک تحفہ بھیجا کرتے تھے، کیا وجہ ہے کہ تین راتوں سے وہ تحفہ ہمیں نہیں ملا ۔ رئیس احمد جیسے ہی خواب سے بیدار ہوا۔ خواجہ بختیار کاکی علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوااور اپنا خواب بیان کیا۔

آپ کی طرف دو کتابیں منسوب کی جاتی ہیں۔ ایک دیوان ہے اور دوسری فوائد السالکین جو تصوف کے موضوع پر ہے۔ سماع سے بہت رغبت تھی۔ دہلی میں ایک محفل سماع میں وجد طاری ہوا اور اسی حالت میں‌ آپ رخصت ہو گئے۔ مزار قطب صاحب کی لاٹھ کے قریب ہے۔